ایک چشم دید موت

Adabi aur tanqeedi mazaameen
Afsane aur tabsire

Moderator: munir-armaan-nasimi

Post Reply
Muzaffar Ahmad Muzaffar
-
-
Posts: 1258
Joined: Sun Feb 12, 2006 1:40 pm
Location: London, England
Contact:

ایک چشم دید موت

Post by Muzaffar Ahmad Muzaffar »

ایک چشم دید موت

سہیل انجم
۰۲ فروری، ہفتے کا دن، دہلی اردو اکادمی کے قمر رئیس سلور جوبلی ہال میں سمینار کے دوسرے دن کی پہلی نشست۔ سمینار کا موضوع ہے ”اردو کے فروغ میں فلم، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ڈرامے کی خدمات“۔ پہلے اجلاس میں تمام مقالے پڑھے جا چکے۔ مجلس صدارت کے ایک رکن ڈاکٹر نعمان خاں اپنی تقریر کر چکے۔ دوسری تقریر بلکہ خطبہ صدارت مذکورہ موضوع کے ماہر ملک کے معروف ادیب، نقاد، ڈرامہ نگار، شاعر اور صحافی زبیر رضوی پیش کر چکے۔ انھوں نے اپنے خطبے میں اس موضوع پر بھرپور انداز میں اظہار خیال کیا۔ انھوں نے اس خیال کو رد کیا کہ اردو ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اردو میں اتنی کشش ہے اور اتنے امکانات ہیں کہ فلم ہو یا ریڈیو ہو یا ٹیلی ویژن ہو یا ڈرامہ ہو، ان تمام شعبوں اور اصناف سے وابستہ افراد نے اس لیے اردو کو اپنایا اور اس کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا کہ اس زبان کے اندر بے پناہ امکانات ہیں۔ وہ اردو کی محبت میں اردو کو وسیلہ ¿ اظہار نہیں بناتے بلکہ اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ شوبھنا کے لیے غالب کی غزل پر رقص پیش کرنے میں زیادہ امکانات نظر آتے ہیں، ہندی شاعری میں یا دوسری زبان کی شاعری میں نظر نہیں آتے۔ زبیر رضوی نے اردو کا مرثیہ پڑھنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”میں سسکیوں سے رونے کا حامی نہیں ہوں، بس آنکھوں کو نم کرنے میں یقین رکھتا ہوں“۔ جس وقت انھوں نے یہ فقرہ ادا کیا ان کی آنکھیں واقعی نم ہو گئی تھیں۔ انھوں نے اردو کے فروغ میں فلم، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ڈرامے کی خدمات پر تقریباً تیس پینتیس منٹ تک سیر حاصل گفتگو کی۔ کئی مواقع ایسے آئے جب وہ جذباتی بھی ہو گئے۔ انھوں نے اپنی تقریر کا یہ آخری جملہ ادا کیا ”لگتا ہے میں کچھ زیادہ جذباتی ہو گیا“۔ اور پھر اپنی نشست پر جاکر بیٹھ گئے۔ اردو اکادمی کے وائس چیئرمین ڈاکٹر ماجد دیوبندی مقالہ نگاروں، مجلس صدارت کے ارکان اور سامعین کا شکریہ ادا کرنے آئے۔ ابھی وہ تین چار جملے ہی ادا کر پائے تھے کہ میری نظر زبیر رضوی پر اتفاقیہ طور پر پڑ گئی۔ چونکہ دوسرے اجلاس میں مجھے بھی مقالہ پیش کرنا تھا اس لیے میں پہلے آگیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ زبیر صاحب کچھ ڈھیلے ڈھیلے ہو رہے ہیں۔ پھر ان کی گردن جھکنے لگی۔ ان کے برابر میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر نعمان خان نے ان کے بازو کو سہلایا اور انھیں گلاس میں پانی پینے کے لیے پیش کیا۔ لیکن جب انھوں نے گلاس اپنے ہاتھ میں نہیں پکڑا تو انھوں نے انھیں غور سے دیکھا تو ان کی آنکھیں بند تھیں۔ انھوں نے ان کو اپنے ہاتھ سے پانی پلانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں پی سکے اور سارا پانی ان کے کپڑوں پر گر گیا۔ ماجد دیوبندی اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھے کہ نعمان صاحب نے بہ آواز بلند کہا کہ ماجد صاحب زبیر صاحب کی طبیعت خراب ہو رہی ہے ان کو فوراً اسپتال بھجوانا چاہیے۔ پھر تو ہنگامہ ہو گیا۔ زبیر صاحب پر دل کا شدید دورہ پڑا تھا۔ وہ اپنی کرسی پر سکڑ کر رہ گئے تھے۔ ان کو کرسی سمیت اسٹیج سے نیچے لایا گیا۔ اتنے میں ان کو ایک قے ہوئی اور لوگوں نے دیکھا کہ پیشاب بھی خطا ہو گیا ہے۔ فوراً ایک گاڑی میں بٹھا کر اسپتال لے جائے جانے لگے کہ چند فرلانگ کے بعد ہی انھوں نے اپنی آخری سانس لی۔ پروگرام ختم کر دیا گیا اور کچھ دیر کے بعد جب لوگ بجھے دل کے ساتھ ظہرانے کی طرف بڑھے تو فون آیا کہ زبیر صاحب کی روح خاکی جسم سے پرواز کر چکی ہے۔ انھیں پنت اسپتال لے جایا گیا تھا۔ ان کے گھر فون کیا گیا۔ ان کے اہل خانہ وہیں آگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انھیں ان کے آبائی وطن امروہہ لے جایا جا رہا ہے جہاں نماز عشا کے بعد ان کی تدفین ہوگی۔ ظاہر ہے ایسے میں سمینار کا جاری رہنا مناسب نہیں تھا۔ کچھ دیر کے بعد ایک تعزیتی نشست ہوئی۔ ان کے حق میں دعائیں کی گئیں اور سمینار کے التوا کا اعلان کر دیا گیا۔
مجھے فوری طور پر عامر عثمانی اور ماہرالقادری یاد آگئے۔ ۲۱ اور ۳۱ اپریل ۵۷۹۱ کی درمیانی شب تھی۔ پونے میں ایک مشاعرہ ہو رہا تھا۔ عامر عثمانی اپنا کلام سنارہے تھے کہ ان پر دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ کلام سناتے سناتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ دوسرا واقعہ ۸۷۹۱ کا ہے۔ ماہر القادری جدہ کے ایک مشاعرے میں گئے تھے۔ مشاعرے کے دوران حفیظ جالندھری نے دو اشعار کے بعد تیسرا شعر بطور طنز ماہر صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے پڑھا :
بہشت میں بھی ملا ہے مجھے عذاب شدید
یہاں بھی مولوی صاحب ہیں میرے ہمسائے
ماہر صاحب نے مائک کے پاس آکر کہا ”یہ غلط جگہ پہنچ گئے تھے“۔ پھر حفیظ جالندھری سے کہا میں تو پیار کرتا ہوں اور پیار کا خواہاں ہوں۔ حفیظ نے یہ شعر پھر ان کی طرف دیکھ کر دوہرایامگر ایک ہی مصرعہ پڑھ پائے تھے کہ ماہر صاحب پر دل کا شدید دورہ پڑا۔ وہ بیٹھے بیٹھے اس طرح گرے کہ یوں سمجھا گیا گویا تھک گئے تو کچھ لیٹنے کو جی چاہا ہوگا۔ کئی ڈاکٹر اسٹیج پر چڑھ گئے ۔ حفیظ جالندھری نے دوسرے مصرعہ کے ساتھ ماہر صاحب کو جھک کر دیکھا تو محسوس ہوا جیسے ماہر زبان خامشی سے کہہ رہے ہوں”تم کو میری ہمسائیگی کا عذاب شدید ہے تو میں چلتا ہوں“۔ اس طرح انھوں نے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کر دی۔
ایسے واقعات بہت سے پیش آئے ہیں۔ خود دہلی اردو اکادمی کے اسی ہال میں چند سال قبل اس وقت کے وائس چیئرمین پروفیسر قمر رئیس پر ایک پروگرام کے دوران دل کا دورہ پڑا تھا اور چند روز کے بعد ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ زبیر صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ بہت نرم گوئی سے گفتگو کرتے۔ کئی با ران سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ ہر بار میں نے محسوس کیا کہ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور اپنے موضوع پر ان کو پوری گرفت ہے۔ وہ عام طور پر پروگراموں میں شرکت سے گریز کرتے تھے۔ گزشتہ سال مجھے دہلی اردو اکادمی نے صحافت کا ایوارڈ دیا۔ کئی روز کے بعد ایک پروگرام میں ملاقات ہو گئی تو انھوں نے دوڑ کر گلے لگا لیا اور کافی دیر تک مبارکباد دیتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے کہ میں تو تمھیں ڈھونڈ رہا تھا کہ مبارکباد دوں اب ملے ہو مبارکباد قبول کرو۔ کیا خبر تھی کہ یہ ان کی آخری تقریر ہوگی۔ میں پروگرام میں تھوڑا تاخیر سے پہنچا تھا اس لیے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ ڈاکٹر نعمان خاں نے بتایا کہ صبح کے وقت ان سے وہ بتا رہے تھے کہ میں پروگراموں وغیرہ میں نہیں جاتا۔ میری عمر بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ میں ۲۸ سال کا ہو گیا ہوں۔ بیمار رہنے لگا ہوں۔ ڈاکٹروں نے بہت زیادہ بولنے اور بہت زیادہ محنت کرنے سے منع کر رکھا ہے۔ لیکن اس پروگرام میں وہ تین گھنٹے بیٹھے رہے اور ۵۳ منت تک تقریر کی۔ آخری جملہ سے قبل ہی ان کو کچھ احساس ہو گیا تھا۔ الفاظ کی ادائیگی میں ان کو دشواری ہوئی جس کا اندازہ لوگوں کو بعد میں ہوا۔ کسی طرح سے انھوں نے آخری جملہ ادا کیا کہ ”لگتا ہے میں کچھ زیادہ جذباتی ہو گیا“ اور اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ وہ اپنی نشست پر کیا بیٹھے ملک الموت کی گو دمیں بیٹھ گئے
Modify message
Post Reply