عرفان وحید کی کچھ غزلیں
Posted: Wed Dec 06, 2017 4:28 am
غزلیات عرفان وحید
اف یہ وحشت، یہ آگہی کا فساد
کس قدر بے اماں ہے شــــــہرِمراد
دادِ بیداد جب ملے بیداد
پڑتی ہے انقـــــــــلاب کی بنیاد
بیٹھا کب ہے دوانہ توڑ کے پاؤں
اک سفر اور، مرے جنوں ایجاد!
اب کے ســــرخ آندھیوں کی بن آئی
بجھتے جاتے ہیں اب کے شعلہ نژاد
زخم ہیں کائنات کے خنداں
جسَــــدِ کُــــن سے گِریہ کُن ہے مواد
سیلِ وحشت کو اب سنبھال ذرا
کیوں اٹھائی تھی شہر کی بنیاد
دل کہ صدیوں سے اک خرابہ تھا
تــــــــــــم جو آئــــے تو ہوگیا آباد
عمر گزری یہ سوچتے کہ کہاں
عمر نے کردیــا ہمیں بـــــــرباد
منزلیں دھول ہوگئیں پیچھے
آگیا ہوں ورائے کوئے مــــــــراد
آپ چپ ہیں، بڑا کرم عــــــرفان
آپ کی چپ بھی ہے ہنر کی داد



زعمِ ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے
اور بدن طرہء پیچاک سے باندھا گیا ہے
ایک آنسو تری پوشاک سے باندھا گیا ہے
یا ستارا کوئی افلاک سے باندھا گیا ہے
عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے
اور پھر گردشِ افلاک سے باندھا گیا ہے
خاک اڑاتا ہوں میں تا عمر نبھانے کے لیے
ایک رشتہ جو مرا خاک سے باندھا گیا ہے
ٹوٹے پڑتے ہیں تماشے کو یہاں پر نخچیر
آج صیاد کو فتراک سے باندھا گیا ہے
کشتِ وحشت ہو جسے دیکھنی آئے دیکھے
ہر بگولہ خس و خاشاک سے باندھا گیا ہے
پھر وہی حرفِ تمنا ہے وہی ساعتِ درد
پھر ہمیں دیدہء نمناک سے باندھا گیا ہے
اب کسی کوزہ گری کی نہیں حاجت کہ مجھے
تا فنا ایک اسی چاک سے باندھا گیا ہے
ہم گنہ گاروں کی ہے آخری امید وہی
عہد اک جو شہِ لولاک سے باندھا گیا ہے
کجا یہ شوخ ادا دنیا، کجا میں عرفان
مردِ سادہ زنِ بیباک سے باندھا گیا ہے
(عرفان وحید)



یہ دانۂ ہوس تمھیں حرام کیوں نہیں رہا
اڑان کا وہ شوق زیرِ دام کیوں نہیں رہا
مسافتوں کا پھر وہ اہتمام کیوں نہیں رہا
سفر درونِ ذات بے قیام کیوں نہیں رہا
بکھر گئی ہے شب تو تیرگی کا راج کیوں نہیں
جو بام پر تھا وہ مہِ تمام کیوں نہیں رہا
ہمارے قتل پر اصولِ قتل گہ کا کچھ لحاظ!
صلیب و دار کا بھی اہتمام کیوں نہیں رہا
بھلا یہ کیسے مان لیں کہ دل کو صاف کرلیا
جو صلح ہو گئی تو پھر کلام کیوں نہیں رہا
جو شعبدے تھے تیرے پیر ِوقت اُن کا کیا ہوا
عطائے حسن و عشق پر دوام کیوں نہیں رہا
جو پیروۓ ہواۓ نفس و بندۂ ہوس ہوا
اسے یہ غم وہ وقت کا امام کیوں نہیں رہا
دلوں کو جیتنے کی جو کرامتیں تھیں کیا ہوئیں
نظر نظر جو فیض تھا وہ عام کیوں نہیں رہا



ہزار رنجِ سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے
یہ کیسی خانہ بدوشی ہے گھر کے ہوتے ہوئے
وہ حبسِ جاں ہے برسنے سے بھی جو کم نہ ہوا
گھٹن غضب کی ہے اک چشم تر کے ہوتے ہوئے
مرے وجود کو پیکر کی ہے تلاش ابھی
میں خاک ہوں ہنرِ کوزہ گر کے ہوتے ہوئے
سحر اجالنے والے کرن کرن کے لیے
ترس رہے ہیں فروغِ سحر کے ہوتے ہوئے
ہر انکشاف ہے اک انکشافِ لاعلمی
کمالِ بے خبری ہے خبر کے ہوتے ہوئے
گریزاں مجھ سے رہا ہے ہر ایک سایۂ دیوار
میں دھوپ دھوپ جلا ہوں شجر کے ہوتے ہوئے
ہم اس سے مل کے کریں عرضِ حال کچھ عرفان
محال ہے یہ دلِ حیلہ گر کے ہوتے ہوئے



پسِ سکوت، سخن کو خبر بنایا جائے
فصیلِ حرف میں معنی کا در بنایا جائے
حسابِ سودوزیاں ہوچکا بہت، اب کے
وفورِ شوق کو عرضِ ہنر بنایا جائے
لگن اڑان کی دل میں ہنوز باقی ہے
کٹے پروں ہی کو اب شاہ پر بنایا جائے
کسی پڑاؤ پہ پہنچیں گے جب تو سوچیں گے
ابھی سے کیا کوئی زادِ سفر بنایا جائے
فرازِدار پہ کرکے بلند آخرِ شب
مرے ہی سر کو نشانِ سحر بنایا جائے
بہت طویل ہوا سلسلہ رقابت کا
کبھی ملو تو اسے مختصر بنایا جائے
قدم قدم پہ ہے بستی میں وحشیوں کا ہجوم
چلو کہیں کسی صحرا میں گھر بنایا جائے
ضمیرِنوعِ بشر کب سے ہوچکا رخصت
نئے خمیر سے تازہ بشر بنایا جائے
مفر محال ہے قیدِ مکاں سے جب عرفان
تو کیوں نہ پھر اسی گنبد کو گھر بنایا جائے



سرِ آئینہ حیرانی بہت ہے
ستم گر کو پشیمانی بہت ہے
خرد کی گرچہ ارزانی بہت ہے
جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے
سبھی وحشی یہیں پر آرہے ہیں
مرے گھر میں بیابانی بہت ہے
یہاں ہر چند سب خوش پیرہن ہیں
مگر دیکھو تو عریانی بہت ہے
نہ جانے کب مری مٹھی میں آئے
وہ اک لمحہ کہ ارزانی بہت ہے
عجب الجھن کہ چپ رہنا بھی مشکل
جو کہہ دوں تو پشیمانی بہت ہے
میں سمتِ دشت جانا چاہتا تھا
مگر اس میں تن آسانی بہت ہے
بھلا کر بیٹھتا ہوں ہر کسی کا
ابھی مجھ میں یہ نادانی بہت ہے
خدایا جوڑ کیا ہے عشق و دل کا؟
تری بخشش پہ حیرانی بہت ہے
زمیں کو راس کب آئے گا عرفاں
وہ حرفِ حق کہ نقصانی بہت ہے



دیں دیدٔہ خوش خواب کو تعبیر کہاں تک
اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک
کب تک کہو گے جذبۂ تعمیر کو تخریب
اے اہلِ صفا جھوٹ کی تشہیر کہاں تک؟
اب دوست بنانے کا ہنر بھی ذرا سیکھیں؟
کی جائے مہہ و نجم کی تسخیر کہاں تک
اے شہرِ انا تیرے فریبوں کے بھرم میں
آئینہ مثالوں کی ہو تحقیر کہاں تک
ہر آن کوئی مجھ میں نیا ٹوٹ رہا ہے
آخر کوئی خود کو کرے تعمیر کہاں تک



ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے
قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے
بربادیٔ گلشن کا جو سامان بنا تھا
بربادیٔ گلشن پہ پشیماں بھی وہی ہے
ہے نسبت ِنومیدیٔ تاریکیٔ شب جو
اک مژدۂ امید ِفروزاں بھی وہی ہے
پانی میں تلاطم بھی اسی چاند کے باعث
اور اپنی ادا دیکھ کے حیراں بھی وہی ہے
تطہیرِ سیاست کا بھی دعویٰ ہے اُسی کو
تنقیدِ حکومت سے گریزاں بھی وہی ہے
مشکل ہے مفر وحشتِ تنہائی سے عرفان
جو قریہ ہے آباد، بیاباں بھی وہی ہے



یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا
میں تھا لہو لہو وہ تماشائیوں میں تھا
چہرے سے میں نے غم کی لکیریں مٹا تو دیں
لیکن جو کرب روح کی گہرائیوں میں تھا
وہ حوصلہ کہ پھیردے دو جو آندھیوں کے رخ
وہ حوصلہ ابھی مری پسپائیوں میں تھا
دیتا ہے روز اک نیا الزام آج کل
پہلے وہ شخص بھی مرے شیدائیوں میں تھا
کہتے ہیں ایک میں نہ تھا بدنام شہر میں
چرچا ترے بھی نام کا رسوائیوں میں تھا
عرفاں وہ کم نصیب کہ تھا جانِ انجمن
یاروں کے بیچ رہ کے بھی تنہائیوں میں تھا



اس سے تسلیم بس یونہی سی ہے
برف احساس کی جمی سی ہے
چلیے، احباب کو تو جان گئے
یہ مصیبت تو عارضی سی ہے
کچھ تو چارہ گری کرے کوئی
آج کچھ درد میں کمی سی ہے
آج چپکے سے کس کی یاد آئی
دل کے آنگن میں چاندنی سی ہے
کس نے ترک وفا کیا پہلے؟
یہ شکایت بھی باہمی سی ہے
حسرتو، اب تو ہو چلو خاموش
نبض بیمار کی تھمی سی ہے
عمر گزری جسے بیاں کرتے
وہ کتھا اب بھی ان کہی سی ہے



نعت رسول ﷺ
وراے سدرہ وہ نقشِ دوام آپؐ کا ہے
کہ انتہا سے بھی آگے مقام آپؐ کا ہے
جمال، حرف، نظر، روشنی، ادا، خوشبو
صد استعارہ کمال و تمام آپؐ کا ہے
حضورِ ایزدی چرچا مدام ہے ان کا
زباں پہ جن کی شب و روز نام آپؐ کا ہے
وہی جہاں میں ہے بس احترام کے لائق
غلام جو بھی اے خیرالانام آپؐ کا ہے
تمام دنیا کو ہے آپؐ کا پیام نوید
تمام خلق پہ رحمت نظام آپؐ کا ہے
چمن چمن میں درودوں کے زمزمے ہیں مدام
کلی کلی کی چٹک میں سلام آپؐ کا ہے
ہزار راہِ محبت میں آئے دشواری
وفاشعار مگر مست گام آپؐ کا ہے
زہے کہ نوکِ قلم آج نعتِ پاک ہوئی
خوشا کہ وردِ زباں آج نام آپؐ کا ہے
وحیدؔ بھی ہے طلب گارِ کوثر و تسنیم
اگرچہ وہ بہت ادنیٰ غلام آپؐ کا ہے



نعت رسول خیر الانامﷺ
حیات آفریں سب انقلاب اُنؐ کے ہیں
ازل سے جو بھی ہیں روشن نصاب اُنؐ کے ہیں
غلام سارے ہی عزت مآب اُنؐ کے ہیں
تمام ذرے بنے آفتاب اُنؐ کے ہیں
اگرچہ جاں سے گزرنا ہے دشتِ حق کا سفر
وفا شعار مگر فوزیاب اُنؐ کے ہیں
فضا ہے ساری معطر بفیضِ ذکرِ نبیؐ
مشامِ جاں میں مہکتے گلاب اُنؐ کے ہیں
جو اُنؐ کے جادے سے بھٹکی وہ زیست زیست نہیں
رہِ حیات کے سارے نصاب اُنؐ کے ہیں
اُنھیںؐ کی نعتِ مسلسل جسے کہیں قرآں
سخن خدا کا، ثناؤں کے باب اُنؐ کے ہیں
ہمیں توازنِ فکر و نظر ملا اُنؐ سے
درونِ ذات کُھلے ہیں جو باب اُنؐ کے ہیں
ہماری نیند سدا اُنؐ کی تشنۂ دیدار
ہماری جاگتی آنکھوں میں خواب اُنؐ کے ہیں
جہاں میں لوگ وہی خوش نصیب ہیں عرفانؔ
درِ نیاز سے جو باریاب اُنؐ کے ہیں



سلام بحضور امام عالی مقام
ہنوز عرصہ ٔ جور و جفا میں ٹھہرا ہے
یہ وقت معرضِ کرب و بلا میں ٹھہرا ہے
ہے اذنِ عام چلا جائے جس کو جانا ہے
دِیا خموشی سے شب کی رِدا میں ٹھہرا ہے
ابھی تو پیاس ہرائے گی اور دریا کو
ابھی تو معرکہ بابِ وفا میں ٹھہرا ہے
یہ کون نوکِ سناں سے ہوا ہے آج طلوع
کہ لمحہ شب کا فروغِ ضیا میں ٹھہرا ہے
بدن تو کب کا مدینے کو لوٹ آیا تھا
مگر یہ دل کہ ابھی کربلا میں ٹھہرا ہے
یزیدِ وقت سے بیعت ہیں وقت کے کوفی
یہ معرکہ ابھی شہرِ ریا میں ٹھہرا ہے
نجات ہے تو شہِ دین کے اصولوں میں
علاجِ دوراں غمِ لادوا میں ٹھہرا ہے
سکون نالہ و آہ و بکا میں ہے مُضمِر
قرار گِریۂ خونیں ادا میں ٹھہرا ہے
سلام اُن پہ کہ عرفان اعتبارِوفا
انھیں کی پیروئ نقشِ پا میں ٹھہرا ہے
اف یہ وحشت، یہ آگہی کا فساد
کس قدر بے اماں ہے شــــــہرِمراد
دادِ بیداد جب ملے بیداد
پڑتی ہے انقـــــــــلاب کی بنیاد
بیٹھا کب ہے دوانہ توڑ کے پاؤں
اک سفر اور، مرے جنوں ایجاد!
اب کے ســــرخ آندھیوں کی بن آئی
بجھتے جاتے ہیں اب کے شعلہ نژاد
زخم ہیں کائنات کے خنداں
جسَــــدِ کُــــن سے گِریہ کُن ہے مواد
سیلِ وحشت کو اب سنبھال ذرا
کیوں اٹھائی تھی شہر کی بنیاد
دل کہ صدیوں سے اک خرابہ تھا
تــــــــــــم جو آئــــے تو ہوگیا آباد
عمر گزری یہ سوچتے کہ کہاں
عمر نے کردیــا ہمیں بـــــــرباد
منزلیں دھول ہوگئیں پیچھے
آگیا ہوں ورائے کوئے مــــــــراد
آپ چپ ہیں، بڑا کرم عــــــرفان
آپ کی چپ بھی ہے ہنر کی داد
زعمِ ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے
اور بدن طرہء پیچاک سے باندھا گیا ہے
ایک آنسو تری پوشاک سے باندھا گیا ہے
یا ستارا کوئی افلاک سے باندھا گیا ہے
عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے
اور پھر گردشِ افلاک سے باندھا گیا ہے
خاک اڑاتا ہوں میں تا عمر نبھانے کے لیے
ایک رشتہ جو مرا خاک سے باندھا گیا ہے
ٹوٹے پڑتے ہیں تماشے کو یہاں پر نخچیر
آج صیاد کو فتراک سے باندھا گیا ہے
کشتِ وحشت ہو جسے دیکھنی آئے دیکھے
ہر بگولہ خس و خاشاک سے باندھا گیا ہے
پھر وہی حرفِ تمنا ہے وہی ساعتِ درد
پھر ہمیں دیدہء نمناک سے باندھا گیا ہے
اب کسی کوزہ گری کی نہیں حاجت کہ مجھے
تا فنا ایک اسی چاک سے باندھا گیا ہے
ہم گنہ گاروں کی ہے آخری امید وہی
عہد اک جو شہِ لولاک سے باندھا گیا ہے
کجا یہ شوخ ادا دنیا، کجا میں عرفان
مردِ سادہ زنِ بیباک سے باندھا گیا ہے
(عرفان وحید)
یہ دانۂ ہوس تمھیں حرام کیوں نہیں رہا
اڑان کا وہ شوق زیرِ دام کیوں نہیں رہا
مسافتوں کا پھر وہ اہتمام کیوں نہیں رہا
سفر درونِ ذات بے قیام کیوں نہیں رہا
بکھر گئی ہے شب تو تیرگی کا راج کیوں نہیں
جو بام پر تھا وہ مہِ تمام کیوں نہیں رہا
ہمارے قتل پر اصولِ قتل گہ کا کچھ لحاظ!
صلیب و دار کا بھی اہتمام کیوں نہیں رہا
بھلا یہ کیسے مان لیں کہ دل کو صاف کرلیا
جو صلح ہو گئی تو پھر کلام کیوں نہیں رہا
جو شعبدے تھے تیرے پیر ِوقت اُن کا کیا ہوا
عطائے حسن و عشق پر دوام کیوں نہیں رہا
جو پیروۓ ہواۓ نفس و بندۂ ہوس ہوا
اسے یہ غم وہ وقت کا امام کیوں نہیں رہا
دلوں کو جیتنے کی جو کرامتیں تھیں کیا ہوئیں
نظر نظر جو فیض تھا وہ عام کیوں نہیں رہا
ہزار رنجِ سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے
یہ کیسی خانہ بدوشی ہے گھر کے ہوتے ہوئے
وہ حبسِ جاں ہے برسنے سے بھی جو کم نہ ہوا
گھٹن غضب کی ہے اک چشم تر کے ہوتے ہوئے
مرے وجود کو پیکر کی ہے تلاش ابھی
میں خاک ہوں ہنرِ کوزہ گر کے ہوتے ہوئے
سحر اجالنے والے کرن کرن کے لیے
ترس رہے ہیں فروغِ سحر کے ہوتے ہوئے
ہر انکشاف ہے اک انکشافِ لاعلمی
کمالِ بے خبری ہے خبر کے ہوتے ہوئے
گریزاں مجھ سے رہا ہے ہر ایک سایۂ دیوار
میں دھوپ دھوپ جلا ہوں شجر کے ہوتے ہوئے
ہم اس سے مل کے کریں عرضِ حال کچھ عرفان
محال ہے یہ دلِ حیلہ گر کے ہوتے ہوئے
پسِ سکوت، سخن کو خبر بنایا جائے
فصیلِ حرف میں معنی کا در بنایا جائے
حسابِ سودوزیاں ہوچکا بہت، اب کے
وفورِ شوق کو عرضِ ہنر بنایا جائے
لگن اڑان کی دل میں ہنوز باقی ہے
کٹے پروں ہی کو اب شاہ پر بنایا جائے
کسی پڑاؤ پہ پہنچیں گے جب تو سوچیں گے
ابھی سے کیا کوئی زادِ سفر بنایا جائے
فرازِدار پہ کرکے بلند آخرِ شب
مرے ہی سر کو نشانِ سحر بنایا جائے
بہت طویل ہوا سلسلہ رقابت کا
کبھی ملو تو اسے مختصر بنایا جائے
قدم قدم پہ ہے بستی میں وحشیوں کا ہجوم
چلو کہیں کسی صحرا میں گھر بنایا جائے
ضمیرِنوعِ بشر کب سے ہوچکا رخصت
نئے خمیر سے تازہ بشر بنایا جائے
مفر محال ہے قیدِ مکاں سے جب عرفان
تو کیوں نہ پھر اسی گنبد کو گھر بنایا جائے
سرِ آئینہ حیرانی بہت ہے
ستم گر کو پشیمانی بہت ہے
خرد کی گرچہ ارزانی بہت ہے
جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے
سبھی وحشی یہیں پر آرہے ہیں
مرے گھر میں بیابانی بہت ہے
یہاں ہر چند سب خوش پیرہن ہیں
مگر دیکھو تو عریانی بہت ہے
نہ جانے کب مری مٹھی میں آئے
وہ اک لمحہ کہ ارزانی بہت ہے
عجب الجھن کہ چپ رہنا بھی مشکل
جو کہہ دوں تو پشیمانی بہت ہے
میں سمتِ دشت جانا چاہتا تھا
مگر اس میں تن آسانی بہت ہے
بھلا کر بیٹھتا ہوں ہر کسی کا
ابھی مجھ میں یہ نادانی بہت ہے
خدایا جوڑ کیا ہے عشق و دل کا؟
تری بخشش پہ حیرانی بہت ہے
زمیں کو راس کب آئے گا عرفاں
وہ حرفِ حق کہ نقصانی بہت ہے
دیں دیدٔہ خوش خواب کو تعبیر کہاں تک
اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک
کب تک کہو گے جذبۂ تعمیر کو تخریب
اے اہلِ صفا جھوٹ کی تشہیر کہاں تک؟
اب دوست بنانے کا ہنر بھی ذرا سیکھیں؟
کی جائے مہہ و نجم کی تسخیر کہاں تک
اے شہرِ انا تیرے فریبوں کے بھرم میں
آئینہ مثالوں کی ہو تحقیر کہاں تک
ہر آن کوئی مجھ میں نیا ٹوٹ رہا ہے
آخر کوئی خود کو کرے تعمیر کہاں تک
ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے
قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے
بربادیٔ گلشن کا جو سامان بنا تھا
بربادیٔ گلشن پہ پشیماں بھی وہی ہے
ہے نسبت ِنومیدیٔ تاریکیٔ شب جو
اک مژدۂ امید ِفروزاں بھی وہی ہے
پانی میں تلاطم بھی اسی چاند کے باعث
اور اپنی ادا دیکھ کے حیراں بھی وہی ہے
تطہیرِ سیاست کا بھی دعویٰ ہے اُسی کو
تنقیدِ حکومت سے گریزاں بھی وہی ہے
مشکل ہے مفر وحشتِ تنہائی سے عرفان
جو قریہ ہے آباد، بیاباں بھی وہی ہے
یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا
میں تھا لہو لہو وہ تماشائیوں میں تھا
چہرے سے میں نے غم کی لکیریں مٹا تو دیں
لیکن جو کرب روح کی گہرائیوں میں تھا
وہ حوصلہ کہ پھیردے دو جو آندھیوں کے رخ
وہ حوصلہ ابھی مری پسپائیوں میں تھا
دیتا ہے روز اک نیا الزام آج کل
پہلے وہ شخص بھی مرے شیدائیوں میں تھا
کہتے ہیں ایک میں نہ تھا بدنام شہر میں
چرچا ترے بھی نام کا رسوائیوں میں تھا
عرفاں وہ کم نصیب کہ تھا جانِ انجمن
یاروں کے بیچ رہ کے بھی تنہائیوں میں تھا
اس سے تسلیم بس یونہی سی ہے
برف احساس کی جمی سی ہے
چلیے، احباب کو تو جان گئے
یہ مصیبت تو عارضی سی ہے
کچھ تو چارہ گری کرے کوئی
آج کچھ درد میں کمی سی ہے
آج چپکے سے کس کی یاد آئی
دل کے آنگن میں چاندنی سی ہے
کس نے ترک وفا کیا پہلے؟
یہ شکایت بھی باہمی سی ہے
حسرتو، اب تو ہو چلو خاموش
نبض بیمار کی تھمی سی ہے
عمر گزری جسے بیاں کرتے
وہ کتھا اب بھی ان کہی سی ہے
نعت رسول ﷺ
وراے سدرہ وہ نقشِ دوام آپؐ کا ہے
کہ انتہا سے بھی آگے مقام آپؐ کا ہے
جمال، حرف، نظر، روشنی، ادا، خوشبو
صد استعارہ کمال و تمام آپؐ کا ہے
حضورِ ایزدی چرچا مدام ہے ان کا
زباں پہ جن کی شب و روز نام آپؐ کا ہے
وہی جہاں میں ہے بس احترام کے لائق
غلام جو بھی اے خیرالانام آپؐ کا ہے
تمام دنیا کو ہے آپؐ کا پیام نوید
تمام خلق پہ رحمت نظام آپؐ کا ہے
چمن چمن میں درودوں کے زمزمے ہیں مدام
کلی کلی کی چٹک میں سلام آپؐ کا ہے
ہزار راہِ محبت میں آئے دشواری
وفاشعار مگر مست گام آپؐ کا ہے
زہے کہ نوکِ قلم آج نعتِ پاک ہوئی
خوشا کہ وردِ زباں آج نام آپؐ کا ہے
وحیدؔ بھی ہے طلب گارِ کوثر و تسنیم
اگرچہ وہ بہت ادنیٰ غلام آپؐ کا ہے
نعت رسول خیر الانامﷺ
حیات آفریں سب انقلاب اُنؐ کے ہیں
ازل سے جو بھی ہیں روشن نصاب اُنؐ کے ہیں
غلام سارے ہی عزت مآب اُنؐ کے ہیں
تمام ذرے بنے آفتاب اُنؐ کے ہیں
اگرچہ جاں سے گزرنا ہے دشتِ حق کا سفر
وفا شعار مگر فوزیاب اُنؐ کے ہیں
فضا ہے ساری معطر بفیضِ ذکرِ نبیؐ
مشامِ جاں میں مہکتے گلاب اُنؐ کے ہیں
جو اُنؐ کے جادے سے بھٹکی وہ زیست زیست نہیں
رہِ حیات کے سارے نصاب اُنؐ کے ہیں
اُنھیںؐ کی نعتِ مسلسل جسے کہیں قرآں
سخن خدا کا، ثناؤں کے باب اُنؐ کے ہیں
ہمیں توازنِ فکر و نظر ملا اُنؐ سے
درونِ ذات کُھلے ہیں جو باب اُنؐ کے ہیں
ہماری نیند سدا اُنؐ کی تشنۂ دیدار
ہماری جاگتی آنکھوں میں خواب اُنؐ کے ہیں
جہاں میں لوگ وہی خوش نصیب ہیں عرفانؔ
درِ نیاز سے جو باریاب اُنؐ کے ہیں
سلام بحضور امام عالی مقام
ہنوز عرصہ ٔ جور و جفا میں ٹھہرا ہے
یہ وقت معرضِ کرب و بلا میں ٹھہرا ہے
ہے اذنِ عام چلا جائے جس کو جانا ہے
دِیا خموشی سے شب کی رِدا میں ٹھہرا ہے
ابھی تو پیاس ہرائے گی اور دریا کو
ابھی تو معرکہ بابِ وفا میں ٹھہرا ہے
یہ کون نوکِ سناں سے ہوا ہے آج طلوع
کہ لمحہ شب کا فروغِ ضیا میں ٹھہرا ہے
بدن تو کب کا مدینے کو لوٹ آیا تھا
مگر یہ دل کہ ابھی کربلا میں ٹھہرا ہے
یزیدِ وقت سے بیعت ہیں وقت کے کوفی
یہ معرکہ ابھی شہرِ ریا میں ٹھہرا ہے
نجات ہے تو شہِ دین کے اصولوں میں
علاجِ دوراں غمِ لادوا میں ٹھہرا ہے
سکون نالہ و آہ و بکا میں ہے مُضمِر
قرار گِریۂ خونیں ادا میں ٹھہرا ہے
سلام اُن پہ کہ عرفان اعتبارِوفا
انھیں کی پیروئ نقشِ پا میں ٹھہرا ہے