منیر نیازی کی زمین میں متین امروہوی ، ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی اور سراج طالب سراج کی غزلیں

Kuhnah mashq ShoAraa kaa kalaam jo beHr meiN hounaa zaroori hei

Moderator: Muzaffar Ahmad Muzaffar

Post Reply
User avatar
aabarqi
-
-
Posts: 596
Joined: Tue Oct 07, 2008 11:09 am
Location: New Delhi
Contact:

منیر نیازی کی زمین میں متین امروہوی ، ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی اور سراج طالب سراج کی غزلیں

Post by aabarqi »

منیر نیازی کی زمین میں متین امروہوی ، ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی اور سراج طالب سراج
کی غزلیں
متین امروہوی
’’ جس شہر میں بھی رہنا اُکتائے ہوئے رہنا ‘‘
کیا خاک یہ رہنا ہے ، گھبرائے ہوئے رہنا
اے بادِ صبا جاکر پھولوں سے یہ کہنا ہے
گلچیں کا گذر ہو جب مُرجھائے ہوئے رہنا
زلفوں کو تری جاناں یہ زیب نہیں دیتا
ناگن کی طرح سر پر بل کھائے ہوئے رہنا
دنیا کو اگر تم کو آئینہ دکھانا ہے
خود چہرے کو اپنے بھی چمکائے ہوئے رہنا
یہ وعدۂ فردا بھی کیا اُس کا کھلونا ہے
بچوں کی طرح مجھ کو بہلائے ہوئے رہنا
ہے یاد مجھے یہ بھی مھفل میں متین اس کا
میری یہ غزل پڑھ کر شرمائے ہوئے رہنا

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
اس رشکِ نگاراں کا بل کھائے ہوئے رہنا
دُزدیدہ نگاہوں سے للچائے ہوئے رہنا
وہ کاکُلِ مُشکیں کا الجھائے ہوئے رہنا
ایوان محبت کو مہکائے ہوئے رہنا
اب تک میں نہیں بھولا ہے یاد مجھے سب کچھ
اس کا مرے پہلو میں شرمائے ہوئے رہنا
تفریح کا ساماں ہے یہ اس کے لئے شاید
بیمار محبت کا گھبرائے ہوئے رہنا
ہے اس کے تصور سے سرشار دلِ مضطر
زلفوں کا گھٹا بن کر وہ چھائے ہوئے رہنا
راضی بہ رضا ہوں میں جو چاہو کرو ، لیکن
شانوں پہ مرے زلفیں لہرائے ہوئے رہنا
برداشت سے باہر ہے یہ اس کی دلآزاری
دیدار دے آنکھوں کو ترسائے ہوئے رہنا
کس طرح سہے برقی یہ اس کی ستم کوشی
جذبات کی شدت کو بھڑکائے ہوئے رہنا
غزل دیگر
احمد علی برقی اعظمی
گلچیں کے مظالم سے گھبرائے ہوئے رہنا
گلزار میں پھولوں کا مپرجھائے ہوئے رہنا
ہے اہلِ سیاست کی عیاری و مکاری
دیرینہ مسائل میں الجھائے ہوئے رہنا
ہے حمِ زباں بندی کچھ کہہ بھی نہیں سکتا
وعدوں سے فقط اس کا بہلائے ہوئے رہنا
تھا بارِ غمِ دوراں پہلے ہی سے کیا کچھ کم
اب نانِ جویں سے بھی ترسائے ہوئے رہنا
اپنی ہے یہ مجبوری کچھ کر بھی نہیں سکتے
’’ جس شہر میں بھی رہنا اُکتائے ہوئے رہنا ‘‘
ہر وقت یہ خدشہ ہے دس لے نہ مجھے آکر
ناگن کی طرح اس کا بِل کھائے ہوئے رہنا
پہلے تو نہ تھے ایسے حالات مرے برقی
برداشت سے باہر ہے گھبرائے ہوئے رہنا

غزل
سراج طالب سراج
اک شعلہ محبت کا دہکائے ہوئے رہنا
دل، جان و جگر جس میں گرمائے ہوئے رہنا
دریا تری فطرت کو یہ زیب نہیں دیتا
بے وقت اُبل پڑنا اُپھنائے ہوئے رہنا
مالی کی یہ چاہت ہے سب اس کے مطابق ہو
پھولوں کو ہدایت ہے مُرجھائے ہوئے رہنا
ہے وقت بہت نازک موقع ہے سنبھل جاؤ
اب موت کو دعوت ہے اَلسائے ہوئے رہنا
یہ صِنفِ سخن بھی تو زلفوں کے مُشابہ ہے
اُلجھن کو زمانے کی سلجھائے ہوئے رہنا
ہے عالمِ تنہائی کچھ ایسا سمجھ لیجے
پرچھائیں سے در جانا گھبرائے ہوئے رہنا
یہ ترک تعلق کا کیا خوب بہانہ ہے
بِن بات اُلجھ جانا جُھنجھلائے ہوئے رہنا
اس ہجر کے موسم میں دل اتنا پریشاں ہے
’’ جس شہر میں بھی رہنا اُکتائے ہوئے رہنا ‘‘
ہے کام سراج اپنا ظلمت کو مٹا دینا
تاریکی ٔ دل کو بھی چمکائے ہوئے رہنا



Attachments
Mateen Amrohvi.jpg
Mateen Amrohvi.jpg (9.69 KiB) Viewed 406 times
Barqi Azmi-Pic.jpg
Barqi Azmi-Pic.jpg (38.99 KiB) Viewed 406 times
Siraj Talib Siraj.jpg
Siraj Talib Siraj.jpg (28.48 KiB) Viewed 406 times
http://www.drbarqiazmi.com
Post Reply